تعلیم و تربیت

بسم اللہ خوانی و سلسلئہ تعلیم: صحیح طور پر نہ معلوم ھو سکا کہ حضور اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کی بسم اللہ خوانی کس عمر میں ھوئی ۔ مگر وقت بسم اللہ خوانی عجیب واقعہ پیش آیا ۔ حضور کے استاذ محترم نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد الف،با،تا ثا جس طرح پڑھایا جاتاھے ،پڑھایا ۔ حضور ان کے پڑھا نے کے مطابق پڑھتے رھے ۔ جب لام الف[لا]کی نوبت آئی، استاذ نے فرمایا : کھو ، لام الف ۔ حضور خاموش ھو گئے ،اور نھیں کھا،استاذ دوبارہ کہا : کہو میاں : لام الف ۔ حضور نے فرمایا کہ یہ دونو تو پڑھ چکے ھیں ۔ یہ دوبارہ کیسا ؟ اس وقت حضور کے جد امجد حضرت مولانا رضا علی خاں صاحب قدس سرہ العزیز نے کہ جامع کمالات ظاھری و باطنی تھے، فرمایا: بیٹا استاذ کا کہا مانو، جو کہتے ھیں پڑھو ۔ حضور نے اپنے جد امجد کی تعمیل حکم کی ، اور اپنے جد امجد کے چھرے کی طرف نظر کی ۔ حضور نے اپنی فراست ایمانی سے سمجھا کہ اس بچے کو شبہ یہ ھورہا ھے کہ یہ حروف مفردہ کا بیان ھے ، اب اس میں ایک مرکب لفظ کیسے آیا؟ ورنہ یہ دونوں حرف الگ الگ توپڑھ ھی چکے ھیں ۔ اگرچہ بچے کی عمر کے اعتبار سے اس راز کو ظاہر کرنا مناسب نہ تھا ، اور سمجھ سے بالا خیال کیا جاتا ، مگر" ہونہار بروے کے چکنے چکنے پات"حضرت جد امجد نے نور باطنی سے سمجھا کہ یہ لڑکا کچھ ھونے والا ھے ، اس لئے ابھی سے اسرار و نکات کا ذکر ان کے سامنے مناسب جانا اور فرمایا : بیٹا تمہارا خیال درست اور سمجھنا بجا ھے ، مگر بات یہ ھے کہ شروع میں تم نے جس کو الگ پڑھا حقیقة وہ ھمزہ ھے ، اور یہ در حقیقت الف ھے ۔ لیکن الف ہمیشہ ساکن ھو تاھے ، اور ساکن کے ساتھ ابتدا ناممکن ۔ اس لئے ایک حرف لام ، اول میں لاکر اس کا تلفظ بتانا مقصود ھے۔ حضور نے فرمایا : تو کوئی ایک حرف ملا دینا کافی تھا ، اتنے دور کے بعد لا کی کیا خصوصیت ھے ؟ با،تا، دال، سین ، بھی اول لا سکتے تھے ۔ حضرت جد امجد نے غایت محبت و جوش میں گلے لگالیا ، اور دل سے بہت دعائیں دیں، اور پھر فرمایا کہ لام اور الف میں صورة سیرة مناسبت خاص ھے ۔ ظاھرا لکھنے میں بھی دونوں کی صورت ایک سی ھوتی ھے۔ لا،اور سیرة اس وجہ سے کہ لام کا قلب الف ھے اور الف کا قلب لام ھے، یعنی یہ اس کے بیچ میں ھے اور وہ اس کے بیچ میں گویا۔
من تو شدم تو من شدی من تن شد م تو جاں شدی
تا کس   نگوید  بعد   از یں   من دیگرم  تو دیگری
کہنے کو حضور کے جد امجد نے اس لام الف کو مرکب لانے کی وجہ بیان فرمائی، مگر باتوں بات میں سب کچھ بتا دیا ، اور اسرار و حقائق کے رموز و اشارات کے دریافت و ادراک کی صلاحیت و قابلیت اسی وقت سے پیدا کردی، جس کا اثر سب نے آنکھوں سے دیکھ لیا کہ شریعت میں وہ اگر امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے قدم بقدم ھیں ، تو طریقت میں حضور پر نور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے نائب اکرم ھیں۔
اعلی حضرت خود فرماتے تھے کہ میرے استاذ جن سے میں ابتدائی کتاب پڑھتا تھا ، جب مجھے سبق پڑھا دیا کرتے ، ایک دو مرتبہ دیکھ کر کتاب بند کر دیتا ، جب سبق سنتے تو حرف بحرف لفظ بہ لفظ سنا دیتا ۔ روزانہ یہ حالت دیکھ کر سخت تعجب کرتے ۔ ایک دن مجھ سے فرمانے لگے احمد میاں یہ تو کہو تم آدمی ھو یا جن ؟ کہ مجھ کو پڑھاتے دیر لگتی ھے مگر تم کو یاد کرتے دیر نھیں لگتی ۔
جناب علی محمد خاں صاحب اعلی حضرت کے بھانجے فرماتے تھے کہ جناب والدہ ماجدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ اعلی حضرت کبھی پڑھنے میں ضد نہیں کی ۔ خود سے برابر پڑھنے کو تشریف لے جایا کرتے ، جمعہ کے دن بھی چاہا کہ پڑھنے کو جائیں ، مگر والد صاحب کے منع فرمانے سے رک گئے ، اور سمجھ لیا کہ ہفتہ میں جمعہ کے دن کی بہت اہمیت ھونے کیوجہ سے نھیں پڑھنا چاھئے، باقی چھ دن پڑھنے کے ھیں ۔
درسیات سے فراغت : جب عربی کی ابتدائی کتابوں سے حضور اعلی حضرت فارغ ھوئے ۔ تو تمام درسیات کی تکمیل اپنے والد ماجد حضرت علامہ مولانا نقی علی خاں صاحب قادری برکاتی متولد ۱۲۴۶ھ متوفی ۱۲۹۷ھ رضی اللہ تعالی عنہ سے تمام فرمائی اور تیرہ سال دس مہینہ کی عمر شریف میں ۱۲۸۶ھ میں تمام درسیات سے فراغ پایا ۔ زبر و بینات سے تعویذ تاریخ فراغت ھے ۔ اور اس میں صاف بشارت ھے کہ اللہ تعالی ہمیشہ ہمیشہ حضور اعلی حضرت کو دشمنوں کے شر سے پناہ میں رکھے گا ۔ اور دوسرا مادہ تاریخ غفور ھے ۔ اس میں خوشخبری ھے کہ اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے حضور اور حضور کے وابستگان دامن کے لئے غفور ھے۔
دنیا، مزار، حشر، جہاں  ھیں غفور ھیں
ھر منزل اپنے ماہ کی منزل غفر کی ھے


|  HOME  |